کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 36
اٹھائے ہوئے ہیں ، لہٰذا انہیں چاہیے کہ ہر ردی اور جعلی چیز سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں ، پریشان انسانیت کی قرآن کے ذریعے رہنمائی کریں اور اسے سلامتی کے کنارے تک لے جائیں ۔جس طرح ماضی میں انہوں نے قرآن کے ساتھ حکومت قائم کی تھی، آج بھی یہ سب کچھ قرآن کی بدولت ہی نصیب ہو گا۔ قرآن کریم کی تعریف: قَرَأ: جمع کرنے اور ملانے کے معنی میں آتا ہے، اور القراء ۃ پڑھتے ہوئے کلمات اور حروف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن بھی اصل میں قراء ۃ کی طرح ہے، یعنی مصدر ہے جیسے: قراء، یَقْرئُ قِرائَ ۃً وقرآناً۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ. فَاِِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ﴾ (القیامۃ: ۱۷۔۱۸) ’’اس کا جمع کرنا اور (آپ کا زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ۔‘‘ یہاں قرآن سے مراد قراء ت ہے، یہ فُعْلان (فا کے ضمہ کے ساتھ) مصدر ہے، جس طرح غفران اور شکران مصدر آتے ہیں ۔ آپ کہتے ہیں قراء تہ، قرائً وقراء ۃً وقرئَ ا نا جو بھی پڑھیں ، مطلب ایک ہی ہوگا، پڑھی جانے والی چیز کو ’’قرآن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی مصدر کو مفعول کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے اور یہ نام اسی کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے۔ قرآن کا لفظی اطلاق پورے قرآن پر بھی ہوتا ہے اور ایک آیت پر بھی، چناں چہ جب آپ کسی شخص کو قرآن کی ایک آیت تلاوت کرتے ہوئے سنیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قرآن پڑھ رہا ہے۔قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا﴾ (الاعراف: ۲۰۴) ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔‘‘