کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 359
ج۔ بعض لوگ یہ مذہب رکھتے ہیں کہ اس اعجاز کا تعلق ایک مکمل سورت کے ساتھ ہے وہ سورت چھوٹی ہو یا بڑی یا پھر ایک سورت کے برابر یا ایک آیت کے ساتھ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے پورا قرآن بنا لانے کا چیلنج بھی کیا۔ ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا.﴾ (الاسراء: ۸۸) دس سورتیں لانے کا بھی ﴿فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ﴾ (ہود: ۱۳) ایک سورت بنا لانے کا بھی ﴿فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ﴾ (یونس: ۳۸) اور ایک بات بنالانے کا چیلنج بھی کیا ہے فرمایا: ﴿فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ﴾ (الطور: ۳۴) ہمارے نزدیک اعجازِ قرآن ایک معین مقدار میں نہیں ہے کیوں کہ ہم تو اس کی آواز، حروف، کلمات اور اسی طرح اس کی آیات اور سورتوں میں بھی اعجاز پاتے ہیں ، اس کے اعجاز کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ وجہ اعجاز جو بھی ہو، قدر معجز کوئی بھی ہو لیکن حق کا متلاشی اور منصف مزاج محقق قرآن کو جس پہلو سے بھی دیکھے گا اسے پسند کرے گا، وہ پہلو اسلوب کا ہو یا علوم کا یا آثار کا پہلو ہو جو اس نے دنیا پر چھوڑا ہے اور تاریخ کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے یا پھر ان تمام پہلوؤں سے دیکھے تب بھی یہ اعجاز واضح خطوط پر استوار ہوگا۔ اب ہمارے لیے مناسب بات یہی ہے کہ ہم تین وجوہات کے لحاظ سے اعجازِ قرآن کو بیان کریں ۔ (۱) لغوی اعجاز (۲) علمی اعجاز (۳) تشریعی اعجاز ۱۔ لغوی اعجاز : جب سے عربی زبان معرضِ وجود میں آئی اس وقت سے ہی اہلِ عرب نے اس کے فنون میں خوب مہارت حاصل کی یہاں تک کہ یہ زبان پروان چڑھی، عنفوانِ شباب کو پہنچی اور پھر اپنی