کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 358
اونٹوں کے عرب چرواہوں کو قوموں کا سردار اور امتوں کا قائد بنا دیا اور اس کے اعجاز کے لیے یہی بات کافی ہے۔ امام خطابی اپنی کتاب ’’بیان اعجاز القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں : قرآن کریم کے معجز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ فصاحت سے بھرپور، بہترین انداز پر اس کی تالیف، توحیدِ الٰہی اور اس کی تنزیہ وصفات کے عمدہ ترین معانی پائے جاتے ہیں ۔ اپنی اطاعت کی طرف بلانے، طریقہ عبادت کے بیان، حلال وحرام ، حظر واباحت، وعظ وتقویم، امربالمعروف، نہی عن المنکر، اخلاق حسنہ کی ترغیب اور برے اخلاق سے ترہیب کے بہترین اسلوب اپنایا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن ہر معاملے کو ایک ایسی جگہ پر رکھتا ہے جس سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی، اس سے بہتر معاملہ عقل میں آہی نہیں سکتا، اس میں قرونِ اولیٰ کی خبریں اور ہٹ دھرم، ضدی اور نافرمان قوموں پر آنے والے عذابوں کی تفاصیل ہیں اور آنے والے اور گزشتہ زمانے کے حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس نے حجت اور جس کے لیے حجت اختیار کی گئی دلیل اور مدلول علیہ سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا تاکہ دعوتِ قرآن کی تاکیدِ مزید اور اوامرونواہی کی خبر دی جا سکے۔ نیز یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ تمام امور پھر ان تمام چیزوں کو بڑے سلیقہ کے ساتھ ایک لڑی میں پرونا ایک ایسا کام ہے جو انسانی طاقت سے باہر ہے۔ مخلوق اس کام کے آگے بے بس اور ان کی قدرت ایسا کرنے سے قاصر ہے اور ساری انسانیت اس کے مقابلہ سے عاجز ہے۔ قرآن کریم کی معجزانہ (بے بس کرنے والی) مقدار: ا۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ اس اعجاز کا تعلق پورے قرآن یا پوری سورت سے ہے نہ کہ کسی ایک حصے سے۔ ب۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن تھوڑا ہو یا زیادہ معجز ہی ہے سورت وغیرہ کی قید نہیں لگائی جائے گی کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلْیَاْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖ﴾ (الطور: ۳۴) اس جیسی ایک بات ہی لے آئیں ۔