کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 357
قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا﴾ (ہود: ۴۹) ’’یہ غیب کی خبروں سے ہے جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں ، اس سے پہلے آپ انہیں نہیں جانتے تھے۔‘‘ لیکن یہ قول مردود ہے کیوں کہ اگر اسے درست مان لیا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ جن سورتوں اور آیتوں میں گزشتہ ادوار یا آنے والے وقت کے بارے بیان کیا گیا ہے ان میں اعجاز نہیں ہے، جب کہ یہ سوچ باطل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ہر ایک سورت میں اعجاز رکھا ہے۔ (انظر البرہان للزرکشی، ۲/۹۵،۹۶) ۵۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن مختلف علوم پر مشتمل ہونے اور بلیغ حکمتوں کی وجہ سے معجزہ ہے لیکن اس کے اعجاز کے مختلف پہلو ہیں ۔ جن کی تعداد دس یا اس سے اوپر ہے اور انہی پر اس کا دارومدار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ہر اس لحاظ سے معجز ہے جس چیز پر بھی لفظ اعجاز کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ قرآن اپنے اسلوب اور الفاظ میں معجز ہے: قرآن کریم کا ایک حرف ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا حرف جوڑنے سے کلمہ مکمل نہیں ہو سکتا اسی طرح اسے یہ اعجاز بھی حاصل ہے کہ ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ لانے سے جملہ مکمل نہیں ہوگا۔ نیز ایسے ہی جملہ آیت کے ملانے میں معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن اپنے بیان اور نظم میں معجز ہے: ایک قاری قرآن میں زندگی، کائنات اور انسان کی زندہ تصویر محسوس کرتا ہے۔ یہ اپنے ان معانی کی وجہ سے معجز ہے جنہوں نے انسانی حقیقت اور اس کی ذمہ داریوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح قرآن اپنے ان علوم ومعارف کی وجہ سے معجزہ ہے جن کے پوشیدہ حقائق کو آج کے سائنسی علوم اجاگر کر رہے ہیں ۔ نیز یہ قرآن قانون سازی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لحاظ سے معجز ہے، یہ ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کرتا ہے جس کی بدولت دنیا سعادت سے ہم کنار ہوتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شروع سے آخر تک وہ بے مثال معجزہ ہے جس نے بکریوں اور