کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 355
عرب کو ان کی قدرت کے باوجود قرآن کا مقابلہ کرنے سے باز رکھا۔ اور یہ ’’صرفہ‘‘ خرقِ عادت تھا۔ جب کہ مرتضیٰ کی نظر میں ’’صرفہ‘‘ کا مطلب ہے: کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وہ علوم چھین لیے جن کی ان لوگوں کو قرآن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضرورت تھی تاکہ یہ اس جیسا قرآن نہ بنا لائیں ۔‘‘ یہ ایک ایسی بات ہے جو ان لوگوں کی معذوری کو ظاہر کرتی ہے کیوں کہ جس آدمی سے مقابلہ کرنے کی طاقت چھین لی گئی ہو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس چیز نے ان لوگوں کو لاجواب یا بے بس کر دیا ہے کیوں کہ کسی بھی وقت وہ طاقت آسکتی ہے۔ مرتضیٰ کی اس بات سے تو ’’معجز‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی نہ کہ قرآن کریم جب کہ ہماری بحث اعجازِ قرآن کے بارے ہے۔ چناں چہ قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر قرآن کا مقابلہ کرنا ممکن ہوتا اور ’’صرفہ‘‘ نے رکاوٹ ڈالی ہوتی تو کلامِ الٰہی معجز نہ ہوتا بلکہ اس کام سے روکنا معجز ہوتا اسی طرح کلام کو سوائے کلام ہونے کے کوئی حیثیت حاصل نہ ہوتی۔ ’’صرفہ‘‘ کا قائل ہونا ایک فاسد موقف ہے قرآن کریم اس کا رد کرتا ہے۔ رب العالمین فرماتے ہیں : ﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا.﴾ (الاسراء: ۸۸) اس آیت مبارکہ میں دلیل ہے کہ یہ لوگ قدرت رکھنے کے باوجود عاجز ہیں اور اگر قدرت ہی چھین لی جائے تو جن وانس کے اکٹھے ہونے کیا فائدہ؟ اس طرح تو ان کا اکٹھا ہونا مُردوں کے اکٹھا ہونے کی طرح ہی باقی رہ جاتا ہے جب کہ مردہ لوگوں کی عاجزی قابلِ بیان ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ تو محتاج ہوتے ہیں ۔ ۲۔ ایک قوم کا مذہب ہے کہ قرآن کریم اپنی بلاغت کی وجہ سے معجز ہے اور اس بلاغت کا مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ عربی زبان والوں کا نکتہ نظر ہے جو دلکش وحسین اور محکم بناوٹ میں زندہ معانی کی صورت کے خوگر ہوتے ہیں ۔ ۳۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میں انوکھے فواصل پائے جاتے ہیں جو اس دور کے