کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 354
ہے۔ فرمایا:
﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ. اَوَ لَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ﴾
(العنکبوت: ۵۰۔۵۱)
’’انہوں نے کہا: اس پر اس کے رب کی طرف سے آیات (معجزات) کا نزول کیوں نہ ہوا، آپ کہہ دیجیے آیات اللہ ہی کے پاس ہیں میں تو واضح تنبیہ کرنے والا ہوں ۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس کی تلاوت ان پر کی جاتی ہے۔‘‘
عرب کے لوگ بہت سے اسباب کے ہونے کے باوجود قرآن کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے جو کہ عربی زبان کے عنفوانِ شباب کے دور میں ایک ناکامی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود تمام امتوں کے لیے قرآن کا یہ معجزہ باقی ہے اور آنے والے وقت میں بھی باقی رہے گا۔ آج کا سائنسی علم کائنات کے جن اسرار سے پردہ اٹھا رہا ہے یہ وہی حقائق ہیں جن میں کائنات کے خالق اور مدبر کی قدرت کے اسرار پائے جاتے ہیں ۔ یہ وہ اسرار ہیں جنہیں قرآن کریم نے اجمالاً بیان کیا یا ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس طرح قرآن ساری انسانیت کے لیے ایک معجزہ بن گیا۔
اعجازِ قرآن کی وجوہات:
علم الکلام کی نشوونما نے اسلام پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس بارے جو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اس علم میں بات کی کھال اتاری جاتی ہے۔‘‘ بالکل درست ہے لیکن اس علم میں غوروفکر اور سوچ کی رسیاں اس کے پیروکاروں کو جاہلانہ باتوں کی طرف کھینچتی ہیں ۔ علم الکلام کے حاملین کا المیہ قرآن کریم کو مخلوق قرار دینے سے شروع ہوا پھر اعجازِ قرآن کے بارے ان کی آراء اختلاف کا شکار ہو گئیں ۔
۱۔ ابواسحاق ابراہیم النظام اور اس کے پیروکار مرتضیٰ کا موقف ہے کہ قرآن کریم کے اعجاز کا دارومدار ’’صرفہ‘‘ پر ہے اور النظام کے مطابق ’’صرفہ‘‘ کے معانی یہ ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے