کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 353
لغت قریش میں جمع ہوگئیں تھیں اور یہ وہی زبان ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔
اہلِ عرب تشدد کا رستہ اپنائے ہوئے تھے، تکبروخودداری کی وجہ سے اپنے ہی چچازاد بھائیوں پر حملہ کر دیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے عرب لوگ تاریخ کے اوراق میں ضرب المثل بن چکے تھے تاریخ نے ان کی لڑائیوں کو بھی اپنے سینے میں محفوظ کر رکھا ہے۔ ان میں خوب باہمی جنگ وجدال ہوا جس کی وجہ صرف تکبر وخود پسندی تھی۔ یہ لوگ جن کے پاس لسانی اسباب، فنِ خطابت کی فراوانی، قبائلی شجاعت اور قومی حمیت وغیرت، گو ہر وہ چیز موجود تھی جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے، اگر یہ قوم قرآن کا مقابلہ کرنے کی ہمت کرتی تو تاریخ نے اس بات کو رقم کیا ہوتا بلکہ نسل در نسل یہ بات منتقل ہوتی رہتی۔ ان لوگوں نے قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو پرکھا، اسے ہر زاویے سے جانچا اور اس کے شعرونثر کو دیکھا لیکن وہ کسی ایسی چیز کی ٹوہ نہ لگا سکے جس کی وجہ سے انہیں قرآن کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی۔ اس عظیم کتاب نے ان کے دلوں کو ہلا کر رکھ کر اور ان کی زبانوں پر اس حق کے نعرے گونجنے لگے جس کے سامنے جان بوجھ کر گونگے اور بہرے بنے ہوئے تھے۔ جیسا کہ ولید بن مغیرہ کے بارے منقول ہے کہ جب ان منکرین کے تمام تر حیلے بہانے بے سود رہے تو انہوں نے جھوٹی تہمتوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ کہنے لگے: یہ ماثور جادو ہے یا نبی علیہ السلام کے بارے کہتے: آپ شاعر ومجنون ہیں یا یہ قرآن پچھلے لوگوں کے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ چناں چہ اس بے بسی اور تکبر نے انہیں لڑنے پر مجبور کر دیا جیسے ان کی نظروں میں قاتل مایوسی اپنے ہم نواؤں ایک طویل مدت سے موت کی طرف دھکیل رہی ہو اور وہ موت کو گلے لگا رہے ہوں ، اس طرح بغیر کسی بحث ومباحثے کے قرآن کریم کا اعجاز ثابت ہوگیا۔
قرآن کریم کا سماع ایک ایسی حجت تھی جس کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا تھا۔ اس بات کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبہ: ۶)
’’اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیجیے حتیٰ کہ وہ کلامِ الٰہی کو سن لے۔‘‘
قرآن کریم اعجاز کے پہلوؤں پر مشتمل ہے جنہیں سابقہ تمام مشاہداتی معجزوں پر فوقیت حاصل