کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 351
رافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : قرآن کریم اپنے اعجاز کی ترکیب اور ترکیب کے اعجاز میں کلام کی صورت میں اس کائنات کے نظام کی طرح ہے، جسے علماء نے ہر پہلو سے سمیٹنے کی کوشش کی، ہر کنارے سے نقب زنی کی اور اس کے ہر پہلو پر بحث وتفتیش کے دروازے کھولے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود یہ قرآن آج بھی ان کے سامنے نئے انداز میں آتا ہے اور ان کی دسترس سے باہر ہے۔
اعجاز کی تعریف
الاعجاز:
لغوی معنی ہے ’’عجز کو ثابت کرنا‘‘ جب کہ عرف عام میں عجز کا مطلب ہے کسی کام کو نہ کر پانا۔ عجز، قدرت کا متضاد ہے۔ چناں چہ جب اعجاز ثابت ہوجاتا ہے تو عاجز کرنے والے کی قدرت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں اعجاز سے مراد رسالت کے دعویٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا غالب ہونا ہے کیوں کہ اہلِ عرب نے اس دائمی معجزہ (قرآن) کے مقابلے سے عاجزی کا اظہار کر دیا تھا، اسی طرح ان کے بعد والے بھی عاجز ہی رہے۔
معجزہ:
وہ کام جو خلافِ عادت رونما ہو، اس کے ساتھ چیلنج کیا جائے لیکن کوئی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔
قرآن کریم کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عرب کو چیلنج کیا لیکن اپنی فصاحت وبلاغت کے عروج پر ہونے کے باوجود وہ اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور ایسی چیز ایک معجزہ کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو تین مراحل میں عربوں کے سامنے بطور چیلنج پیش کیا:
۱۔ انسانوں اور جنوں سب کو چیلنج کیا کہ وہ سب اکٹھے ہو کر اس قرآن کے اسلوب پر ایک قرآن بنا لائیں ۔[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا
[1] یہ چیلنج صرف انسانوں کے لیے تھا کیوں کہ جنات کی زبان وہ عربی نہیں تھی جس کے اسلوب پر قرآن نازل ہوا۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں ان کا ذکر قرآن کے اعجاز کی عظمت واضح کرنے کے لیے ہے یعنی اگر فرض کر لیا جائے کہ جن اور انسان مل جائیں اور ایک دوسرے سے تعاون بھی کریں تب بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چناں چہ ایک فریق کس طرح کر سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔