کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 350
اعتراف کر لیں کہ یہ آسمانی طاقت کا کرشمہ ہے۔ چناں چہ جب عقل انسانی میں کمال آگیا تو اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے لیے ہمیشہ رہنے والی رسالتِ محمدیہ کا اعلان فرما دیا اور اس رسالت کا معجزہ ایسا تھا کہ جس نے عقلِ انسانی کے دورِ عروج میں اسے عاجز کر کے رکھ دیا۔ چوں کہ سابقہ ابنیاء علیہم السلام کو مشاہداتی معجزات کی تائید تھی اس لیے عقل کو اس کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کو یدِبیضاء اور لاٹھی کا معجزہ دیا گیا، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو پیدائشی اندھے، برص کے مریض کو تندرست کرنے اور مردے کو زندہ کرنے جیسے معجزات ملے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دور میں معجزہ دیا گیا، وہ عملی میلان کا دور تھا، اس لیے آپ کو عقلی معجزہ دیا گیا جس نے عقلِ انسانی کو مغلوب کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ہمیشہ کے لیے کھلا چیلنج بھی دیا اور یہ ہے قرآن اور اس کے علوم ومعارف کا معجزہ، اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے حالات وواقعات کی خبر دی گئی ہے، عقل انسانی اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی کیوں کہ یہ ایک کونی نشانی ہے، اس کا سامنا کرنا ممکن نہیں ۔ بلکہ عقلِ انسانی ذاتی طور پر کوتاہ ہونے کی وجہ سے قرآن کریم کے آگے بے بس ہے، اس کی بے بسی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول کی طرف وحی ہے اور عقلِ انسانی اپنی کجی کو دور کرنے اور صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اس کتاب کی محتاج ہے، یہی وہ مفہوم ہے جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ فرمایا: ’’ہر نبی کو ویسا ہی معجزہ عطا کیا گیا، جس قدر اس پر لوگ ایمان لائے لیکن مجھے جو معجزہ عطا کیا گیا ، وہ وحی ہے جو اللہ نے میری طرف نازل فرمائی، اس لیے مجھے امید ہے کہ میرے پیروکار زیادہ ہوں گے۔‘‘ (رواہ البخاری) اسی طرح اللہ نے اسلام کے معجزے (قرآن) کے لیے دوام رکھا ہے۔ چناں چہ قدرتِ انسانی اپنی علمی ترقی اور لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اعجازِ قرآن کی بحث کو چھیڑنا خود ایک اعجاز ہے، جستجو کرنے والا جب اس کے کسی ایک راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر کئی ایسے راز منکشف ہوتے ہیں جنہیں گردشِ زمانہ ہی واضح کرتی ہے۔ جیسا کہ شیخ