کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 35
راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو اور اس پر ایمان لاؤ۔‘‘
اپنی ان ہی خصوصیات کے ساتھ قرآن انسانی زندگی کے مختلف روحانی، عقلی، جسمانی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی معاملات کا بڑا حکیمانہ علاج کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ حکمت والے قابل تعریف رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، نیز یہ عام بنیادی معاملات میں بھی ہر مشکل کا حل بتاتا ہے، جس سے انسانیت ایسے خطوط پر استوار ہوتی ہے جن پر ہر دَور کی مناسبت سے تعمیروترقی کے مراحل طے ہوتے ہیں ، نیز ہر جگہ اور ہر مکان کے لحاظ سے اس کی صلاحیت بھی آشکار ہوتی ہے۔
یہ ہمیشہ رہنے والا دین ہے ، چودھویں صدی کے ایک داعی نے کیا ہی خوب کہا ہے:
’’اسلام ایک کامل نظام حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، یہ دولت، وطن، حکومت، امت، اخلاق، طاقت، رحمت، عدالت، ثقافت، قانون، علم، انصاف، دولت وثروت، معیشت، غنا، جہاد، دعوت، لشکر اور فکروسوچ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچا عقیدہ اور بہترین عبادت بھی ہے۔‘‘
(رسالۃ التعالیم، تالیف: حسن البناء)
عصر حاضر کی انسانیت اپنے ضمیر کے لحاظ سے عذاب میں مبتلا ہے، تنظیمی معاملات میں پریشان اور اخلاقی طور پر تباہی کا شکار ہے اور اب اسے پستی کے گڑھے میں گرنے سے قرآن کے علاوہ کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔
فرمان الٰہی ہے:
﴿فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی. وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی﴾ (طٰہٰ: ۱۲۳۔۱۲۴)
’’جو میری حدیث کی پیروی کرے گا وہ بہکے گا اور نہ ہی تکلیف میں پڑے گا اور (ہاں ) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم قیامت کے دن اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘
صرف مسلمان ہی ایسی قوم ہیں جو تنظیمی تاریکیوں اور دوسرے معاملات میں ایک روشن شمع