کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 349
مبحث: 17
اعجازِ قرآن[1]
یہ وسیع کائنات ہر سو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھری ہوئی ہے، اس کے بلندوبالا پہاڑ، گہرے سمندر اور وسیع میدان ایک نازک سی مخلوق انسان کے آگے بے بس نظر آتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس حضرت انسان کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے اور اسے ایک ایسی قوتِ فکر عطا کی ہے جس کی بدولت یہ کائنات کے قوی عناصر کو مسخر کر کے انسانیت کی خدمت کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یوں ہی نہیں چھوڑا بلکہ ایک ایسی وحی کی روشنی سے اس کی مدد فرمائی جو نشاناتِ ہدایت کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہے تاکہ وہ زندگی کے مراحل کو بصیرت کے دلائل کے ساتھ طے کر سکے۔
انسان فطری طور پر کسی کے آگے جھکنا پسند نہیں کرتا، چناں چہ جب کوئی دوسرا انسان ایک ایسا انوکھا کام کر دکھائے جو اس کے بس میں نہ ہو تو دوسرے اس کا اعتراف کرتے ہوئے جھک جاتے ہیں اور اپنی طاقت سے زورآور قدرت پر یقین کر لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر علیہ السلام جن پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی ان کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں ایسے خارِق عادت امور (معجزات) سے تقویت عطا کرتا تھا جس سے لوگوں پر حجت قائم ہوتی اور وہ اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے ان پیغمبروں کی اطاعت اور دوستی کا دم بھرتے۔ فکرِ انسانی کو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک کے دور میں کوئی ایسی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی جو مشاہداتی لحاظ سے معجزات سے زیادہ قوت کے ساتھ ان کے عقل وشعور پر حاوی ہو سکے کیوں کہ عقل انسانی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ جس کی بناء پر معرفت وتنکیر کی بلندیوں کو چھوا جا سکتا۔ اس لیے مناسب یہی تھا کہ ہر رسول کو ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جائے اور اسے معجزہ بھی ایسا دیا جائے جس میں وہ قوم مہارت رکھتی ہو۔ وہ معجزہ ان کے مانوس معاملات سے ہٹ کر ہو تاکہ وہ اس معجزے کے سامنے بے بس ہو کر اس بات کا
[1] لفظ اعجاز مصدر ہے جس کا معنی ہے ’’بے بس کر دینا۔‘‘ اسی سے آپ پڑھیں گے کہ بارہا مقامات پر قرآن کو مُعْجِزْ (بے بس کرنے والا) کہا گیا ہے یعنی لوگ اس جیسا کلام نہ لا سکے اور اس کے آگے بے بس ہو گئے۔ (ع۔م)