کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 348
چناں چہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ھِیَ صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِھَا عَلَیْکُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَۃٗ۔)) (رواہ الامام احمد و مسلم واہل السنن) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے تم اس کے صدقہ کو قبول کرو۔‘‘ یعلیٰ بن امیہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کا شمار بھی فصحائِ عرب میں ہوتا ہے، وہ اس سے یہی سمجھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی بات کو ثابت رکھا۔ عقلی دلائل: اگر خبر کی تحقیق کرنے کے وجوب میں فاسق اور غیر فاسق (عادل) کا حکم برابر ہوتا تو آیت ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (الحجرات: ۶) میں صرف فاسق کے ذکر کو مخصوص کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اسی طرح باقی امثلہ کو بھی اس پر قیاس کر لیں ۔