کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 347
جائز کہنے والوں نے اس کے جواز پر عقل اور نقل سے دلائل دیے ہیں ۔
نقلی دلائل:
۱۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب آیت
﴿اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ﴾ (التوبہ: ۸۰)
نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے اختیار دیا ہے، اللہ کی قسم! میں ستر دفعہ سے زیادہ پڑھوں گا… (نقلہ ابن جریر باسانید کثیرۃ) تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھے تھے کہ ستر سے زیادہ جو پڑھیں گے وہ ان ستر کے برعکس ہوں گے۔
۲۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن وراثت سے محروم ہو جاتی ہے۔ (نقلہ ابن جریر وغیرہ بن ابن عباس) ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ﴾ (النساء: ۱۷۶)
ہے۔ وہ اس سے یہ سمجھے کہ بہن اس وقت وارث ہوگی جب میت کی اولاد نہ ہو۔ اس لیے بیٹی کی موجودگی میں وہ بہن کو وراثت دینے کے قائل نہیں ہیں کیوں کہ بیٹی بھی اولاد ہے نیز ابنِ عباس رضی اللہ عنہ عرب کے فصیح لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں ترجمان القرآن کہا جاتا ہے۔
۳۔ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا وجہ ہے کہ ہم امن میں آجانے کے باوجود نماز کو قصر کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے:
﴿فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ﴾ (النساء: ۱۰۱)
تو انہوں نے اس سے یہ سمجھا کہ نماز کو قصر کرنا حالتِ خوف میں ہے نہ کہ حالتِ امن میں اور عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ فرمانے لگے: جس بات پر تم حیران ہوئے ہو میں بھی ہوا تھا۔