کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 346
لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور ’’لَا بُرْہَانَ لَہٗ‘‘ یہاں صفتِ لازمہ ہے جیسے توکید اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے معبود کا دعویٰ کرنے والے کا مذاق اڑانے کے لیے لایا گیا ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر برہان قائم ہو سکتی ہے۔ اسی طرح آیت ﴿وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ﴾ (النور: ۳۳) میں ایسا کوئی مفہوم نہیں ہے جو یہ دلالت کرتا ہوکہ اگر لونڈی پاک دامن نہ رہنا چاہتی ہو تو مالک اسے زنا پر مجبور کر سکتا ہے۔ ’’اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا‘‘ تو اس لیے کہا ہے کہ زبردستی اسی وقت پائی جاتی ہے جب اس کا ارادہ پاک دامن رہنے کا ہو۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن اُبی (رئیس المنافقین) اپنی لونڈی سے کہتا: جاؤ ہمارے لیے (زنا کی کمائی سے) کچھ لے کر آؤ، جب کہ وہ لونڈی اسے پسند نہیں کرتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُّکْرِہُّنَّ فَاِِنَّ اللّٰہَ مِنْ بَعْدِ اِِکْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْم. (النور: ۳۳) اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ عبداللہ بن ابی کی دو لونڈیاں تھیں ۔ ایک کا نام مسیکہ اور دوسری کا نام امیمہ تھا۔ وہ ان دونوں سے زنا کروانا چاہتا تھا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے آیت: ﴿وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَائِ اِِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُّکْرِہُّنَّ فَاِِنَّ اللّٰہَ مِنْ بَعْدِ اِِکْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْم.﴾ (النور: ۳۳) نازل فرما دی۔ (اخرجہ مسلم وغیرہ) مفہومِ موافقت سے دلیل لینے کا معاملہ آسان ہے۔ اہلِ ظاہر کے علاوہ تمام علماء کا اس سے دلیل لینے کے درست ہونے پر اتفاق ہے۔ جب کہ مفہومِ مخالفت سے دلیل لینے کو امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے جائز جب کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے ناجائز کہا ہے۔