کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 341
دلالت اقتضاء اور دلالتِ اشارہ: دلالت اقتضاء: جب لفظ کی صحیح دلالت کسی پوشیدہ عبارت پر موقوف ہو تو اسے دلالۃ الاقتضاء کہا جاتا ہے۔ امثلہ: ٭ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ (البقرہ: ۱۸۴) یعنی اگر کوئی شخص روزہ چھوڑ دے تو اس پر قضاء ہے۔ مسافر پر روزے کی قضاء تبھی واجب ہوگی جب اس نے سفر میں روزہ چھوڑا ہوگا۔ جب اس نے سفر میں روزہ رکھا ہو تو روزے کی قضاء کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اہلِ ظاہر کے خلاف ہے۔ ٭ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ﴾ (النساء: ۲۳) اس میں لفظ وطی پوشیدہ ہے اور یہاں عبارت اس معنی کی متقاضی ہے یعنی ماؤں سے وطی کرنا حرام ہے کیوں کہ تحریم کی نسبت اشخاص کی طرف نہیں چناں چہ یہاں ایک پوشیدہ لفظ کا ہونا ضروری ہے جس کی طرف حرمت کی نسبت کی جا سکے اور وہ ہے وطی۔ اور یہ قسم (دلالۃ الاقتضاء) مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام بنانے کے قریب قریب ہے۔ بلاغہ کی زبان میں اسے ایجاز القصر کہا جاتا ہے۔ اسے اقتضاء کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کلام عبارت میں موجودہ الفاظ سے زائد کا تقاضا کرتی ہے۔ دلالتِ اشارہ: جب دلالت کسی پوشیدہ عبارت پر موقوف نہ ہو بلکہ لفظ ایسے معنی پر دلالت ہو جو اس لفظ سے فوری طور پر مقصود نہیں ہوتا۔ اسے دلالۃ الاشارۃ کا نام دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ