کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 340
مقالیہ قرائن کی وجہ سے بہت زیادہ ہے۔ ظاہر: جس کے اطلاق کی وجہ سے فوراً معنی سمجھ میں آجائے لیکن اس میں احتمال ہوتا ہے اور وہ احتمال مرجوح ہوتا ہے۔ ’’ظاہر‘‘ محل نطق میں دلالت کے لحاظ سے ’’نص‘‘ کا شریک ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ’’نص‘‘ ایسے معنی کا فائدہ دیتی ہے جس میں کسی اور چیز کا احتمال نہیں ہوتا جب کہ ظاہر اپنے اطلاق کی وجہ سے معنی کا فائدہ دیتا ہے لیکن میں کسی اور چیز کا مرجوح احتمال ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ﴾ (البقرہ: ۱۷۳) باغی جاہل کو بھی کہا جاتا ہے اور ظالم پر بھی باغی کا اطلاق ہوتا ہے لیکن ظالم پر باغی کا اطلاق زیادہ معروف اور راجح ہے؛ لہٰذا پہلا معنی (جاہل) مرجوح ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ﴾ (البقرہ: ۲۲۲) انقطاعِ حیض پر بھی طہر کا لفظ بولا جاتا ہے، اسی طرح وضو اور غسل کو بھی طہر کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن دوسرے معنی (غسل وغیرہ) پر طہر کی دلالت زیادہ راجح ہے اور پہلا معنی (انقطاع حیض) مرجوح ہوگا۔ (یعنی حیض کے انقطاع نہیں بلکہ غسل کر لینے کے بعد مباشرت حلال ہوگی)۔ مؤول: مؤول کا مطلب ہے لفظ کو کسی دلیل کی وجہ سے مرجوح پر محمول کرنا، جب وہ دلیل راحج معنی مراد لینے سے مانع ہو۔ یہ ’’ظاہر‘‘ کے برعکس ہے، کیوں کہ ظاہر میں راحج معنی مراد لیا جاتا ہے اور مرجوح معنی مراد لینے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ لیکن ’’مؤول‘‘ میں لفظ کو کسی دلیل کی وجہ سے مرجوح معنی پر محمول کیا جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ﴾ (الاسراء: ۲۴) یہاں لفظ ’’جَنَاحَ‘‘ کو (پروں پر نہیں بلکہ) عاجزی، انکساری اور والدین کے ساتھ حسن معاملہ پر محمول کیا گیا ہے، کیوں کہ انسان کے لیے پروں کا ہونا ناممکن ہے۔