کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 337
دوسری صورت: قید مختلف ہو جیسے روزوں کے ساتھ کفارہ ادا کرنا، چناں چہ کفارۂ قتل میں مسلسل روزے رکھنے کی شرط ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعِیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ﴾ (النساء: ۹۲) اور ظہار کے کفارہ میں فرمایا: ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا﴾ (المجادلہ: ۴) (یعنی دونوں جگہ تسلسل کی قید ہے) لیکن حجِ تمتع کرنے والے کے روزوں میں تفریق کی قید آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَ یَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ﴾ (البقرہ: ۱۹۶) پھر قسم کے کفارہ میں تفریق یا تسلسل کی قید کے بغیر مطلق روزے رکھنے کا ذکر آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ﴾ (المائدہ: ۸۹) اسی طرح قضاء رمضان کے روزوں کے بارے فرمایا: ﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ (البقرہ: ۱۸۴) تو ان آیات میں مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا کیوں کہ قید مختلف ہے۔ چناں چہ مطلق کو شرط یا قید پر محمول کرنا ترجیحی سبب کے بغیر ترجیح دنیا مناسب نہیں ہوگا۔ ۴۔ سبب اور حکم دونوں مختلف ہوں : وضو اور حدِسرقہ میں ہاتھ کا معاملہ ہے۔ وضو میں کہنیوں تک کی قید لگائی جب کہ حدِسرقہ میں مطلق بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: