کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 336
گیا ہے یعنی ((وَّ الذّٰکِرٰتِ اللّٰہَ کَثِیْرًا ))۔ عرب لوگوں کا طریقہ ہے کہ ایجاز اور اختصار کے لیے شرط یا قید کو ایک ہی دفعہ ذکر کرنا پسند کرتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ.﴾ (ق: ۱۷) سے مراد ہے ’’قَعِیْدٌ عَنِ الْیَمِیْنِ‘‘ (یعنی ایک دائیں جانب بیٹھا ہے۔) لیکن دوسرے مقید کی اس پر دلالت کی وجہ سے اسے حذف کر دیا گیا۔ امام ابوحنیفہ کے اصحاب کی دلیل یہ ہے کہ ﴿وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا.﴾ (الاحزاب: ۳۵) کا عطف ﴿وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۳۵) پر ہے۔ یہ اپنی جگہ مستقل نہیں ہے، اس لیے اسے معطوف علیہ کی طرف لوٹانا واجب ہے جو حکم میں بھی اس کا شریک ہے۔ اس عطف کی مثال اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ.﴾ (ق: ۱۷) میں بھی ہے۔ اس لیے جب بغیر دلیل قید لگانا جائز نہیں تو دلیل لانا ضروری ہے کیوں کہ اس بات پر کتاب وسنت کی کوئی نص دلالت نہیں کرتی۔ اگر قیاس کے ساتھ مقید کیا جائے تو مطلق کا تقاضا ختم ہو جائے اور جو چیز مطلق کے حکم کے تحت تھی وہ خارج ہو جائے گی اور اس طرح نسخ واقع ہوگا جب کہ قیاس کے ساتھ نص کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی رائے والے (موالک اور شوافع) اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہم تسلیم ہی نہیں کرتے کے مطلق کو مقید پر قیاس کرنے کی وجہ سے مطلق نص کا نسخ لازم آتا ہے بلکہ اسے تو صرف اس کے بعض ناموں سے مقید کیا جاتا ہے لہٰذا رَقَبَۃ میں مومنہ کی قید اس لیے لگائی ہے کہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ایمان کی شرط بن جائے۔ جس طرح تم اس رقبہ میں سلامتی (صحیح الاعضاء ہونے) کی شرط لگاتے ہو، حالانکہ اس پر بھی کتاب وسنت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔