کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 335
چناں چہ ایک قول یہ ہے کہ اختلافِ حکم کی وجہ سے مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ امام غزالی نے اکثر شوافع سے اس جگہ مطلق کو مقید پر محمول کرنا نقل کیا ہے کیوں کہ اگرچہ یہاں حکم مختلف ہے لیکن سبب ایک ہے۔
۳۔ سبب مختلف اور حکم ایک ہو:
اس کی دو صورتیں ہیں :
پہلی صورت:
قید یا شرط ایک ہی ہو، جیسے کفارہ میں ایک گردن آزاد کرنا مطلق ہے اور قتلِ خطاء کے کفارہ میں رَقَبَۃٌ مُوْمِنَۃٌ کہہ کر ایمان کے ساتھ مقید کر دیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ﴾ (النساء: ۹۲)
جب کہ ظہار کے کفارہ میں مطلقاً بیان کیا ہے۔ فرمایا:
﴿فَتَحْریْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا﴾ (المجادلۃ: ۳)
اسی طرح قسم کے کفارہ میں فرمایا:
﴿لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ﴾ (المائدہ: ۸۹)
موالک اور شوافع کی ایک جماعت کہتی ہے: یہاں بغیر کسی دلیل کے مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا، لہٰذا ظہار اور قسم کے کفارہ میں کافرہ گردن آزاد کرنا جائز نہیں جب کہ احناف کہتے ہیں : بغیر دلیل مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی رائے رکھنے والوں کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اپنی ذات میں متحد ہے، اس میں تعدد نہیں پایا جاتا، اس لیے جب کفارہ قتل میں ایمان کی شرط ہے تو یہی چیز ظہار کے کفارہ میں نص ہوگی۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا.﴾ (الاحزاب: ۳۵)
کو بغیر کسی خارجی دلیل کے﴿وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: ۳۵) پر محمول کیا