کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 334
مقید: ’’جو کسی قید کے ساتھ اپنی حقیقت پر دلالت کرے۔‘‘ مثلاً ’’فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُؤمِنَۃٍ‘‘ یہاں رقبہ میں ایمان کی قید لگائی گئی ہے۔ مطلق اور مقید کی اقسام اور حکم مطلق اور مقید کی عقلی صورتیں : ہم ان میں سے واقع ہونے والی چند اقسام کا ذیل میں ذکر کریں گے۔ ۱۔ سبب اور حکم ایک ہو: مثلاً قسم کے کفارہ میں روزے رکھتا۔ مصحف کی متواتر قراء ت میں یہ مطلق بیان ہوا ہے۔ ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ﴾ (المائدہ: ۸۹) جب کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں تسلسل کی قید ہے۔ ((فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ۔)) ایسی صورت میں مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے کیوں کہ ایک سبب دو منافی چیزوں کو واجب نہیں کرتا، اسی لیے ایک قوم تسلسل کی شرط لگاتی ہے۔ جب کہ مخالفت کرنے والے کہتے ہیں اگرچہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت مشہور ہے لیکن متواتر نہیں اس لیے حجت نہیں ہو سکتی۔ چناں چہ یہاں کوئی مقید نہیں ہے جس پر مطلق کو محمول کیا جائے۔ ۲۔ سبب ایک اور حکم مختلف ہو: مثلاً وضو اور تیمم میں ہاتھوں کا معاملہ، وضو میں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کی قید لگائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ﴾ (المائدہ: ۶) جب کہ تیمم میں مسح کو مطلقاً بیان کیا ہے، فرمایا: ﴿فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ﴾ (المائدہ: ۶)