کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 333
مبحث: 15 مطلق اور مقید شریعت کے بعض احکام بسا اوقات عمومی لحاظ سے مطلق وارد ہوتے ہیں ، انہیں کسی صفت یا شرط کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا ہوتا اور بسا اوقات ان میں اسی صفت یا شرط کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو پوری جنس کی حقیقت کو شامل ہوتا ہے۔ نیز عربی بیان کی خصوصیت ہے کہ اس میں لفظ کبھی مطلق استعمال ہوتا ہے اور کبھی اسے مقید کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معجزانہ کتاب میں اسے ’’مطلق القرآن ومقیدہ‘‘ یعنی قرآن کے مطلق اور مقید الفاظ کا نام دیا جاتا ہے۔ مطلق اور مقید کی تعریف مطلق: جو بغیر کسی قید کے حقیقت پر دلالت کرے اور یہ حقیقت کے ایک فرد کو شامل ہوتا ہے۔ اکثر مقامات پر اثبات کے لیے نکرہ استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ میں لفظ رقبۃ ہے، یہ غلام آدمی کی آزادی کو شامل ہے۔ یہ اثبات میں چوں کہ نکرہ ہے اس لیے غلاموں کی جنس سے مومنوں اور کافروں سب کو شامل ہے کیوں کہ اس کے معنی ہے: فَعَلَیْہِ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ یعنی اس کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ۔)) (رواہ احمد والاربعۃ) یہ بھی اولیاء کی جنس میں مطلق ہے ولی سمجھ دار ہو یانا سمجھ۔ اس لیے بعض اہلِ اصول نے مطلق کی تعریف یہ کی ہے کہ ’’مطلق ایسے نکرہ کو کہا جاتا ہے جو اثبات کے لیے بیان کیا گیا ہو۔‘‘ نکرہ کی شرط سے اسمائے معرفہ اور ایک معین چیز پر دلالت کرنے والے اسم کو خارج کر دیا گیا ہے اور اثبات کی شرط سے اس نکرہ کو خارج کر دیا گیا ہے جسے نفی کے لیے بیان کیا گیا ہو کیوں کہ وہ بھی اپنی جنس کے تمام افراد کو شامل ہوتا ہے۔