کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 33
الانبیاء ہیں ۔‘‘
یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ قرآن کریم ادیانِ سماوی کی اولین بنیادوں کے لحاظ سے ایک ایسا دین ہے جو تمام ضروریات زندگی کو پورا کرتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾
(الشوریٰ: ۱۳)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو حکم دیا تھا ، جو (بذریعہ وحی) ہم نے آپ کی طرف بھیج دیا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہم السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ساتھ عرب کو چیلنج کیا، حالانکہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا تھا اور وہ خود بھی فصاحت وبیان کے مالک تھے لیکن وہ اس جیسا قرآن، دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی اس جیسی بنانے میں ناکام رہے۔ چناں چہ اس قرآن کا اعجاز ثابت ہوگیا اور اس کے اعجاز کی بدولت رسالت بھی ثابت ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کے حفظ اور تواتر کے ساتھ نقل ہونے کو بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے مقرر کر دیا ہے، اسے لے کر آنے والے فرشتے جبریل علیہ السلام کی صفت اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں :
﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ.﴾ (الشعراء: ۱۹۳)
’’اسے روح الامین لے کر اترا۔‘‘
ایک اور جگہ جبریل علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اس طرح بیان فرمائے:
﴿اِِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ. ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ. مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ. وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ. وَلَقَدْ رَآہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ . وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ﴾ (التکویر: ۲۴۔۱۹)
’’یقینا ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے، جو قوت والا ہے، عرش والے کے نزدیک بلند