کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 329
((اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَیَنَا فَارْجُمُوْھُمَا البَتَّۃَ۔)) کا حکم لا کر سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ نسخ کا شبہ: ناسخ اور منسوخ کی بہت سی مثالیں ہیں لیکن ان کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ ۱۔ کچھ علماء ناسخ اور منسوخ کی کثرت کے قائل ہیں اور اشتباہ کی وجہ سے انہوں نے نسخ میں وہ چیزیں بھی شامل کر دی ہیں جو اس سے تعلق نہیں رکھتیں ۔ ۲۔ بعض اس کے متلاشی ہیں اور نسخ کے معاملے میں صرف صحیح روایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔ نسخ کی کثرت کے قائلین کے اشتباہ پیدا کرنے والے اہم امور: ۱۔ انہوں نے تخصیص کو بھی نسخ سمجھا ہے (اس کی تفصیل کے لیے عام وخاص کی بحث ملاحظہ فرمائیں ) ۲۔ بیان ووضاحت کو بھی نسخ سمجھتے ہیں (اس کی تفصیل کے لیے آئندہ بحث مطلق ومقید دیکھیں ) ۳۔ کسی سبب کی وجہ سے کوئی کام شروع ہوا، پھر وہ سب زائل ہو گیا تو اسے بھی منسوخ سمجھ لیا گیا۔ مثلاً: دعوتِ اسلام کے ابتدائی دور میں کمزوری اور قلت کی وجہ سے کافروں کی طرف دی جانے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا، تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں آیات قتال کے ساتھ منسوخ ہو گئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تکالیف پر صبر کرنا کمزوری اور قلت کی وجہ سے تھا اور یہ اب بھی ہوگا لیکن جب مسلمانوں کی طاقت اور قوت بڑھ جائے تو قتال کے ساتھ اپنے عقیدے کا دفاع کرنا واجب ہے جو کہ دوسرا حکم ہے۔ (نہ کہ ناسخ) ۴۔ یہ لوگ دورِ جاہلیت یا سابقہ امتوں کے جن معاملات کو اسلام نے باطل قرار دیا انہیں بھی نسخ سمجھتے ہیں ۔ مثلاً بیویوں کی تعداد چار تک محدود کرنا، اسی طرح قصاص اور دیت کی مشروعیت، جب کہ بنو اسرائیل میں صرف قصاص تھا دیت نہیں تھی۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے لیکن یہ چیز نسخ نہیں ہے بلکہ یہ براء تِ اصلیہ (اصولی ضابطہ) ہے۔ نسخ کی مثالیں : امام سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الاتقان‘‘ میں اکیس آیات بیان کی ہیں ، جنہیں وہ منسوخ تصور کرتے