کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 327
صَدَقَۃً﴾ (المجادلہ: ۱۲) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ کا حکم دیا ہے، پھر اسی حکم کو اس سے آگلی آیت ﴿اَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَاِِذْ لَمْ تَفْعَلُوْا وَتَابَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ (المجادلہ: ۱۳) سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ بعض معتزلہ اور ظاہر یہ اس نسخ کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ متبادل لائے بغیر نسخ کرنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا﴾ (البقرۃ: ۱۰۶) اس آیت میں دلیل ہے کہ منسوخ حکم کی جگہ اس جیسا یا اس سے بہتر حکم لانا ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب بغیر متبادل کسی آیت کے حکم کو منسوخ کرتے ہیں تو وہ اس کے بندوں کی مصلحت کے لیے اس کی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو نفع دینے کے حوالے سے منسوخ ہونے والے حکم کے متبادل کا نہ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیت کے حکم کو بہتر چیز سے منسوخ کر دیا یعنی متبادل حکم نہ ہونا لوگوں کے لیے بہتری ہے۔ ۲۔ نسخ لا کر اس کے متبادل کوئی چیز لانا: اس کی تین صورتیں ہیں : ۱۔ پہلے سے آسان حکم لانا ۲۔ پہلے حکم کے برابر حکم لانا ۳۔ پہلے حکم سے مشکل حکم لانا ۱۔ پہلے سے آسان حکم لانا: اس کی مثال آیت ﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ﴾ (البقرہ: ۱۸۷)