کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 325
بات ماننے کی نیت پر بھی ثواب ملے گا۔ ۳۔ تلاوت کا منسوخ ہونا اور حکم کا باقی رہنا: نسخ کی اس قسم کی بہت سی مثالیں بیان کی جاتی ہیں : آیتِ رجم ((اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا البَتَّۃَ، نَکالًا مِنَ اللّٰہ واللّٰہ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔)) صحیحین میں مروی ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ شہداء بئرِمعونہ کے بارے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک ان کے قاتلوں کے خلاف قنوت کیا، سیدنا انس فرماتے ہیں : ان کے بارے قرآن نازل ہوا۔ ((اَنْ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنا اَنَّا قد لَقِیْنَا رَبَّنَا فَرَضِی عَنا وَاَرْضَاناَ۔)) پھر اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔ بعض اہلِ علم نسخ کی اس قسم کا انکار کرتے ہیں کیوں کہ اس میں خبرِ واحد وارد ہوئی ہے اور قرآن کے نزول اور نسخ پر خبرِ واحد کے ساتھ قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ ابن الحصار کہتے ہیں : نسخ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی کا صریح قول ہونا ضروری ہے، مثلاً صحابی یوں کہے: ’’آیۃ کذا نسخت کذا‘‘ اور کبھی نسخ کا قطعی حکم تعارض پائے جانے کی وجہ سے بھی لگا دیا جاتا جب تاریخ کا علم ہو تاکہ مقدم اور مؤخر کی پہچان ہو سکے۔ وہ مزید کہتے ہیں : نسخ میں عام مفسرین کے قول پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا بلکہ واضح نص کے بغیر مجتہدین کے اجتہاد پر بھی اعتماد نہیں ہوگا اور اس بارے کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ نسخ میں ایک حکم کو ختم کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہی دوسرے حکم کو ثابت کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں رائے اور اجتہاد نہیں بلکہ نقل اور تاریخ پر اعتماد کیا جائے گا۔ کہتے ہیں : نسخ کے بارے لوگ دو متضاد آراء رکھتے ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں : نسخ میں عادل رواۃ کی اخبار احاد کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جب کہ بعض اس قدر تساہل دکھاتے ہیں کہ وہ مفسر اور مجتہد کے قول کو ہی نسخ کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔ جب کہ درست بات ان