کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 324
قاضی ابوبکر نے ’’الانتصار‘‘ میں ایک قوم سے اس قسم کے انکار کا بیان کیا ہے کیوں کہ اس حدیث کا تعلق اخبارِ احاد سے ہے جب کہ قرآن کریم کے نزول اور منسوخ ہونے کا حکم اخبارِ احاد سے ثابت کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے اور ظنی چیز ایسی دلیل نہیں ہو سکتی جس سے قطعی حکم کو ثابت کیا جا سکے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ کا ثابت ہونا اور چیز ہے اور نزولِ قرآن کا ثابت ہونا اور چیز۔ لہٰذا نسخ کو ثابت کرنے کے لیے خبر احاد کی ظنی دلیل ہی کافی ہے اور جہاں نزولِ قرآن کو ثابت کرنے کا معاملہ ہو تو وہ وہاں خبر متواتی جیسی قطعی دلیل کی شرط لگائی جاتی ہے۔ یہاں ہم نسخ کو ثابت کر رہے ہیں نہ کہ قرآن کو، اس لیے یہاں خبرِ واحد ہی کافی ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قراء تِ تواتر سے ثابت نہیں تو یہ بات درست تھی۔
۲۔ تلاوت کا باقی رہنا اور حکم کا منسوخ ہونا:
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک سال عدت گزارنے کا حکم دینے والی آیت کا حکم منسوخ ہو چکا ہے لیکن اس کی تلاوت باقی ہے۔ اس قسم کے بارے بہت سی کتابیں تالیف کی گئی ہیں جن میں مولفین میں بہت سی آیات کا ذکر کیا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ اس قسم کی آیات بہت کم ہیں جیسا کہ ابوبکر بن العربی کہتے ہیں :
اعتراض کیا جاتا ہے کہ تلاوت کو باقی رکھ کر حکم کو منسوخ کرنے میں کیا حکمت ہے؟ تو اس کا جواب دو طرح سے ہوسکتا ہے۔
۱۔ جس طرح قرآن کو احکام کی معرفت اور ان پر عمل کرنے کے لیے پڑھا جاتا ہے، اسی طرح اسے کلام اللہ ہونے کی وجہ سے پڑھا جائے تو بھی ثواب ملتا ہے۔ اسی حکمت کے پیشِ نظر تلاوت کو منسوخ نہیں کیا گیا۔
۲۔ عموماً نسخ تخفیف کے لیے ہوتا ہے چناں چہ مشقت ختم کرنے کی نعمت کو یاد دلانے کے لیے تلاوت کو باقی رکھا جاتا ہے۔
رہا عمل سے پہلے حکم کا منسوخ ہونا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم جو عمل سے پہلے ہی منسوخ ہو گیا تو اس نسخ کی حکمت یہ ہے کہ اس پر ایمان لانے اور