کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 322
ہے۔ جب کہ احادیثِ احاد ظن کا فائدہ دیتی ہیں ، معلوم کو مظنون چیز سے ختم کرنا درست نہیں ہے۔ ۲۔ قرآن کا احادیثِ متواترہ سے نسخ: امام مالک، ابوحنفیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں کیوں کہ یہ بھی وحی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی.اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی.﴾ (النجم: ۳۔۴) نیز فرمایا: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ﴾ (النحل: ۴۴) اور نسخ بیان کی ہی ایک قسم ہے۔ امام شافعی، اہلِ ظاہر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اس کے قائل نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا﴾ (البقرۃ: ۱۰۶) جب کہ سنت قرآن سے بہتر ہے اور نہ ہی قرآن کی مانند۔ ۳۔ سنت کا قرآن سے نسخ: جمہور اس کے جواز کے قائل ہیں ، شروع شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا سنت سے ثابت ہے لیکن قرآن میں اس کی کوئی دلیل نہیں ۔ اس سنت کو قرآن نے اس آیت ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرہ: ۱۴۴) میں منسوخ کر دیا۔ اسی طرح یومِ عاشورہ کا روزہ سنت کے ساتھ واجب تھا اور قرآن کی آیت: ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ (البقرہ: ۱۸۵) سے منسوخ ہوگیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے مروی ایک روایت کے مطابق وہ اس کے قائل نہیں ہیں ، وہ کہتے ہیں : جب کوئی چیز سنت میں واقع ہوتی ہے تو اس کے ساتھ قرآن ہوتا ہے اسی طرح جب قرآن میں کوئی چیز واقع ہوتی ہے تو سنت اس کی تائید کرتی ہے، اس طرح کتاب وسنت کی آپس میں موافقت ظاہر ہوتی ہے۔ (انظر الاتقان: ۲/۲۱)