کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 321
سے خوب واقف ہے۔ ۲۔ کتاب وسنت کی نصوص نسخ کے جواز اور وقوع پر دلالت کرتی ہیں ، مثلاً کتاب اللہ میں ہے۔ ﴿وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ﴾ (النحل: ۱۰۱) نیز فرمایا: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا﴾ (البقرۃ: ۱۰۶) اسی طرح حدیث میں آتا ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم میں سب سے بڑے قاری اُبی اور سب سے بڑے قاضی علی ہیں لیکن ہم ابی کی بات کو چھوڑتے ہیں کیوں کہ ابی کہتے ہیں : میں نے جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اسے نہیں چھوڑوں گا۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا﴾ (البقرہ: ۱۰۶) نسخ کی اقسام: نسخ کی چار اقسام ہیں : (۱) قرآن کا قرآن سے نسخ (۲) قرآن کا سنت سے نسخ (۳) سنت کا قرآن سے نسخ (۴) سنت کا سنت سے نسخ ۱۔ قرآن کا قرآن سے نسخ: نسخ کی اس قسم کے جواز اور نسخ کے وقوع کے قائلین کا اس نسخ پر اتفاق ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ جس آیت میں ایک سال عدت کا حکم ہے، اسے چار ماہ دس دن والی عدت بیان کرنے والی آیت نے منسوخ کر دیا۔ ۲۔ قرآن کا سنت سے نسخ: اس کی دو قسمیں ہیں : ۱۔ قرآن کا اخبارِ احاد سے نسخ ۲۔ قرآن کا احادیثِ متواترہ سے نسخ ۱۔ قرآن کا اخبارِ احاد سے نسخ: جمہور علماء اس کے عدم جواز کے قائل ہیں کیوں کہ قرآن متواتر ہے جو کہ یقین کا فائدہ دیتا