کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 320
سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مٹانا اور ثابت کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن یہ چیز گمراہی میں غرق ہونے اور تحریف قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے،جس چیز کو اللہ تعالیٰ منسوخ کرنا بہتر سمجھتے ہیں اسے منسوخ کر دیتے ہیں اور اس کی جگہ مصلحت کے مطابق کوئی دوسری چیز ثابت کر دیتے ہیں اور یہ مٹانا اور ثابت کرنا بہت سی چیزوں میں ہوسکتا ہے۔ جیسے گناہوں کو نیکیوں کے ساتھ مٹانا۔
﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ﴾ (ہود: ۱۱۴)
اسی طرح توبہ کرنے والوں کے کفر اور نافرمانیوں کو توبہ کے ساتھ مٹا کر ان میں ایمان واطاعت کو ثابت کرنا۔ وغیرہ۔ لیکن اس سے خفاء کے بعد ظہور (یعنی بداء) لازم نہیں آتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ کام اپنے علم کی وجہ سے کرتے ہیں جو اسے کام ہونے سے پہلے ہوتا ہے۔
۳۔ ابومسلم اصفہانی:
یہ نسخ کو عقلی طور پر جائز سمجھتا ہے لیکن شرعی طور پر اس کے واقع ہونے کا منکر ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خاص طور پر قرآن میں نسخ کا قائل نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:
﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ.﴾ (فصلت: ۴۲)
اس کے مطابق اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام کبھی باطل نہیں ہوسکتے اور یہ آیات نسخ کو تخصیص پر محمول کرتاہے۔
اس کی دلیل کا رد اس طرح کیا گیا ہے کہ قرآن سے پہلے کوئی ایسی کتاب نہیں گزری جو اسے باطل کر سکے اور نہ اس کے بعد آسکے گی۔
۴۔ جمہور علماء:
جمہور علماء کے نزدیک نسخ عقلی طور پر بھی جائز ہے اور شرعی لحاظ سے بھی اس کا وقوع ہو سکتا ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ کے افعال کو غرض وغایت کی ضرورت نہیں ، اسے یہ حق حاصل ہے کہ ایک وقت میں کسی کام کا حکم دے اور دوسرے میں اس سے منع کر دے کیوں کہ وہ بندوں کی مصلحتوں