کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 319
اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔ ان کا یہ استدلال فاسد ہے کیوں کہ ناسخ اور منسوخ کی ہر حکمت اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا علم نیا نہیں ہوتا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی معلوم مصلحت کی وجہ سے اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اور قادر مطلق ہونے کی حیثیت سے اپنے بندوں کو ایک حکم سے دوسرے حکم کی طرف پھیر دیتے ہیں ۔ حالاں کہ یہودی خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پہلی شریعتوں کی ناسخ ہے اور تورات کی نصوص میں بھی نسخ آیا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل پر بہت سے ایسے جانور حرام کر دیئے گئے جو پہلے حلال تھے اللہ تعالیٰ ان کے بارے خبر دیتے ہیں : ﴿کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآئِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ﴾ (آل عمران: ۹۳) ’’بنی اسرائیل پر ہر کھانا حلال تھا سوائے اس کے جسے اسرائیل علیہ السلام نے اپنے لیے حرام کر لیا۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَ عَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ﴾ (الانعام: ۱۴۶) ’’ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا۔‘‘ تورات میں یہ بات بھی ثابت ہے کہ آدم علیہ السلام بہن کی بھائی سے شادی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو موسیٰ علیہ السلام پر حرام کر دیا۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو قتل کریں پھر انہیں تلوار روکنے کا حکم دے دیا۔ ۲۔ روافض: یہ لوگ نسخ کے اثبات میں بہت زیادہ غلو کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر ’’بداء‘‘ کو جائز کہتے ہیں ۔ نسخ کے معاملے میں یہ لوگ یہودیوں کے برعکس ہیں اور انہوں نے اس کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اقوال پر استدلال کیا ہے جو جھوٹ اور بہتان کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُ﴾ (الرعد: ۳۹)