کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 318
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ (البقرہ: ۲۶۹) کے بارے فرمایا: اس سے مراد ناسخ، منسوخ، متشابہ، مقدم، مؤخر، حلال اور حرام کا علم ہے۔ ناسخ اور منسوخ کی معرفت کے ذرائع: ۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابہ سے صراحتاً منقول ہو۔ جیسے حدیث ہے: ((کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ القُبُوْرِ اَلَا فَزُوْرُوْھَا۔)) (رواہ الحاکم) ’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا (لیکن اب) تم ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘ اسی طرح شہداء بئرِمعونہ کے بارے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا قول عن قریب آئے گا کہ ان کے بارے قرآن اترا تھا، پھر اسے اٹھا لیا گیا۔ ۲۔ امت کا اجماع ہو کہ یہ ناسخ ہے اور یہ منسوخ۔ ۳۔ تاریخ کے لحاظ سے مقدم اور مؤخر کی معرفت۔ ملاحظہ: نسخ میں اجتہاد، اقوالِ مفسرین، دلائل کے درمیان ظاہری تعارض اور کسی راوی کے متأخر الاسلام ہونے پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ نسخ کے بارے مختلف آراء اور ان کے ثبوت کے دلائل: نسخ کے بارے میں لوگوں کے چار گروہ ہیں ۔ ۱۔ یہود: یہودی نسخ کا انکار کرتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں نسخ سے ’’بداء‘‘ یعنی معاملے کا مخفی ہونے کے بعد ظاہر ہونا لازم آتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نسخ یا تو بغیر کسی حکمت کے ہوگا جب کہ یہ کام فضول ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا صدور محال ہے یا پھر نسخ کسی ایسی حکمت کے لیے ہوگا جو پہلے ظاہر نہیں تھی اور بعد میں ظاہر ہوگئی اور اس سے بداء اور لاعلمی لازم آتی ہے اور اس کا صدور بھی