کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 317
اسی طرح فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (البقرہ: ۱۸۳) نیز فرمایا: ﴿ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا﴾ (الحج: ۲۷) قصاص کے بارے فرمایا: ﴿وَ کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ﴾(المائدہ: ۴۵) جہاد کے بارے فرمایا: ﴿وَ کَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ﴾ (آل عمران: ۱۴۶) اور اخلاقیات کے بارے فرمایا: ﴿وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا﴾ (لقمان: ۱۸) اسی طرح جو صریح خیر طلب کے معنی میں نہ ہو وہاں نسخ واقع نہیں ہوتا جیسے وعدہ اور وعید کی آیات ہیں ۔ نسخ کی پہچان اور اہمیت علماء، فقہا، اصولیین اور مفسرین کے نزدیک ناسخ اور مسنوخ کی پہچان بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے تاکہ احکام کا اختلاط نہ ہو، اسی لیے اس کی معرفت کی ترغیب پر بہت سے آثار وارد ہوئے ہیں ۔ بیان کیا جاتاہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک قاضی کے پاس سے گزرے تو اسے کہا: کیا تم ناسخ اور منسوخ کو جانتے ہو؟ اس نے جواب دیا:نہیں ۔ تو فرمانے لگے: تم خود بھی ہلاک ہوگئے اور لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا۔