کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 316
نسخ کی شرائط: نسخ کے لیے درجِ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ۱۔ منسوخ ہونے والا حکم شرعی ہو۔ ۲۔ پہلے حکم کو ختم کرنے کی دلیل خطابِ شرعی اور منسوخ ہونے والے حکم کے بعد ہو۔ ۳۔ جس حکم کو ختم کیا جا رہا ہے اس کا خطاب کسی معین وقت کے ساتھ مقید نہ ہو کیوں کہ اس صورت میں وہ حکم صرف اپنے اختتامی وقت تک ہوتا ہے، لہٰذا اس کا نسخ سے تعلق نہیں ہوگا۔ مکی[1] کہتے ہیں : ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ جو خطاب کسی وقت اور غایت کا اشارہ کرتے ہیں جیسے سورۃ البقرہ میں ہے: ﴿فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیِ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ﴾ (البقرہ: ۱۰۹) یہ محکم ہوتا ہے منسوخ نہیں کیوں کہ اسے ایک وقت کے ساتھ مقید کیا گیا ہے اور ایسی چیز میں نسخ واقع نہیں ہوتا۔ نسخ کہاں واقع ہوتا ہے؟ نسخ صرف اوامر اور نواہی میں واقع ہوتا ہے یہ واضح بھی ہو سکتے ہیں اور اپنی خبر کے الفاظ میں بھی انہیں بیان کیا جا سکتا ہے جس میں امر یا نہی کا مفہوم پایا جائے لیکن ایسے امور کا اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اس کی کتابوں ، رسولوں ، آخرت کے دن، آداب اور عبادات ومعاملات کے اصولوں سے تعلق نہ ہو کیوں کہ تمام شرائع ان اصولوں سے خالی نہیں ہوتے اور ان پر سب کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (الشوریٰ: ۱۳)
[1] یہ مکی بن ابوطالب، حموش بن محمد بن مختار القیسی المقرئی ہیں ، ان کی کنیت ابومحمد تھی اور اصل علاقہ قیروان تھا۔ انہوں نے علوم القرآن اور عربی میں بہت سی کتابیں تالیف کیں ۔ ناسخ اور منسوخ کے موضوع پر بھی ان کی ایک کتاب ہے۔ قرطبہ میں رہائش پذیر ہوئے اور دو مرتبہ مصر بھی گئے ۴۳۷ ہجری میں وفات پائی۔