کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 315
نسخ کی تعریف اور شرائط نسخ کی لغوی تعریف: نسخ کا لغوی معنی ہے ’’زائل کرنا‘‘ اسی لیے کہا جاتا ہے ’’نَسَخَتِ الشَّمسُ الظِّلَّ‘‘ یعنی سورج نے سایہ ہٹا دیا۔ اسی طرح ’’نَسَخَتِ الرِّیح اَثَر المَشْیِ‘‘ ہوا نے قدموں کے نشان مٹا دے۔ کسی چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کو بھی نسخ کہا جاتا ہے۔ جیسے ’’نَسَخْتُ الکِتَاب‘‘ میں نے کتاب کی چیزوں (الفاظ) کو دوسری جگہ منتقل کر لیا۔ قرآن میں ہے: ﴿اِِنَّا کُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.﴾ (الجاثیہ: ۲۹) یہاں اعمال کا (صحائف) نامہ اعمال میں منتقل کرنا مراد ہے۔ نسخ کی اصطلاحی تعریف: ((رَفْعُ الحُکْمِ الشَّرعِیِّ بِخِطَابٍ شَرْعِیٍّ۔)) کسی حکم شرعی کو شرعی خطاب سے ختم کرنا۔ چناں چہ حکم کی شرط لگانے سے اصل فرمان کا ختم ہونا خارج ہوگیا اور خطابِ شرعی کی شرط سے موت، جنون یا اجماع وقیاس سے حکم کا ختم ہونا خارج ہوگیا۔ ناسخ: ناسخ کا اطلاق اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ﴾ (البقرہ: ۱۰۶) اسی طرح آیت یا جس چیز سے نسخ معلوم ہو اسے بھی ناسخ کہتے ہیں مثلاً کہا جاتا ہے: ((ھٰذِہِ الاٰ یَۃُ نَاسِخَۃٌ لِاٰیَۃٍ کَذَا۔)) یہ آیت فلاں آیت کی ناسخ ہے۔ نیز کسی حکم کو منسوخ کرنے والے حکم کو بھی ناسخ کہا جاتا ہے۔ منسوخ: ختم ہونے والے حکم کو منسوخ کہا جاتا ہے جیسے آیتِ میراث، والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کے حکم کو منسوخ کرتی ہے۔ (اس کا بیان آگے آئے گا۔)