کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 311
محققین کے نزدیک مختار قول یہی ہے کہ تخصیص کی صورتوں کے علاوہ دیگر صورتوں میں عام کو دلیل بنانا درست ہے اور اس کے لیے انہوں نے اجماعی اور عقلی دلائل سے استدلال کیا ہے۔
ا۔ اجماعی دلائل:
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آیت:
﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ (النساء: ۱۱)
کے عموم کی وجہ سے اپنے والد گرامی کی وراثت کا مطالبہ کیا تھا حالانکہ اس سے کافر اور قاتل کو خاص کیا گیا ہے (یعنی وہ وارث نہیں ہو سکتے) لیکن کسی بھی صحابی نے سیدہ فاطمہ کی اس دلیل کے صحیح ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔ اسی لیے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ورثہ نہ ملنے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
((نَحْنَ مَعَاشَرا لَأنْبِیَاء لا نُوْرَثُ مَا تَرکْنَا صَدَقَۃٌ۔))
سے لی تھی یعنی ’’ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
ب۔ عقلی دلائل:
عام حکم تخصیص سے پہلے اجماعی لحاظ سے ہر قسم کے لیے حجت ہوتا ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ تخصیص سے پہلے جو چیز باقی تھی وہ بعد میں بھی رہے، سوائے اس صورت کے کہ جب کوئی مخالف آجائے اور جب تخصیص کی صورتوں کے علاوہ کوئی معارض (مخالف) نہیں تو عام، تخصیص کے بعد باقی افراد میں حجت ہوگا۔
خطاب کس کے لیے ہوتا ہے؟
٭ جو خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو اس کے بارے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ﴾ (الاحزاب: ۱)
اسی طرح
﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ ﴾ (المائدہ: ۴۱)