کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 310
اسی طرح ’’الرِّبٰوا‘‘ (سود) سے بیع العرایا کو حدیث کے ساتھ مخصوص کیا گیا، یہ جائز ہے۔ چناں چہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم مقدار میں عرایا کو اندازے کے ساتھ بیچنے کی رخصت دی۔ (متفق علیہ)
اجماع سے مخصوص ہونے کی مثال آیتِ میراث:
﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ (النساء: ۱۱)
ہے۔ اجماع کے ساتھ اس آیت سے غلامی کو مخصوص کیا گیا ہے کیوں کہ غلامی وراثت سے مانع ہے۔
اور قیاس سے مخصوص ہونے کی مثال آیت:
﴿الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ﴾ (النور: ۲)
ہے۔ تو قیاس کے ساتھ اس حکم سے لونڈی کو مخصوص کیا گیا ہے اور اس تخصیص کی دلیل آیت
﴿فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ (النساء: ۲۵)
ہے، اس میں لونڈی پر قیاس کرتے ہوئے غلام کو مخصوص کیا گیا ہے۔
قرآن سے سنت کی تخصیص:
کبھی قرآن سے سنت کی تخصیص ہوتی ہے۔ اس کی دلیل ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا قُطِعَ مِنَ البَہِیْمَۃِ وَھِی حَیَّۃٌ فَھُوَ مَیّتٌ۔))(اخرجہ ابوداؤد والترمذی وحسنہ واللفظ لہ)
زندہ جانور سے کاٹا گیا حصہ مردار (کے حکم میں ) ہے لیکن اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿وَ مِنْ اَصْوَافِہَا وَ اَوْبَارِہَا وَ اَشْعَارِہَآ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ.﴾ (النحل: ۸۰)
یعنی ان کی اون، روئیں اور بال وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔
تخصیص کے بعد باقی افراد میں عام سے دلیل لینا درست ہے۔
تخصیص کے بعد بقیہ افراد میں عام سے دلیل لینے کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے: