کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 31
مبحث:2 القرآن انسان پر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ایک احسان ہے کہ اس نے انسان کو صرف فطرت سلیمہ دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا، جو اسے بھلائی کی طرف لے جائے اور نیکی کا راستہ دکھائے بلکہ اس نے گاہے بگاہے اس (انسان) کی طرف رسول بھیجے، جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب ہوتی تھی، وہ اسے اللہ کی طرف بلاتے، اسے خوش خبری دیتے اور (اللہ کے عذابوں سے) ڈراتے رہے، تاکہ اس انسان پر (اللہ تعالیٰ کی) حجت قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: ۱۶۵) ’’خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ ان کی بعثت کے بعد لوگ اللہ تعالیٰ سے کوئی حجت نہ کر سکیں ۔‘‘ انسانیت اپنے تدریجی اور فکری ارتقاء پر چلتی رہی، اور وحی اسے صورت حال کے مطابق آگاہ کرتی رہی اور ہر رسول کی قوم کو درپیش مسائل کا حل بتاتی رہی، یہاں تک کہ جب انسانیت ارتقائی لحاظ سے پختہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دنیا میں روشن کرنے کا ارادہ کیا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کے بعد آپ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اپنی ہمیشہ رہنے والی شریعت اور اپنے اوپر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کے ذریعے اپنے سابقہ انبیاء بھائیوں کی عمارت کو مکمل کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُوْنَ بِہِ، وَیَعْجَبُوْنَ مِنْہُ ، وَیَقُوْلُوْنَ: لَو لَا ہٰذِہِ اللَّبِنَۃ ، فَانَا اللَّبِنَۃُ ، وَاَنَا