کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 309
﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: ۹۷)
میں ’’مَنِ اسْتَطَاعَ‘‘ ’’النَّاس‘‘ سے بدل ہے، اس طرح حج صرف صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔
۲- مخصص منفصل: جس کا ذکر دوسری جگہ کسی آیت، حدیث، اجماع یا قیاس میں ہو قرآن کریم میں اس مخصص کی مثال:
﴿وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ﴾ (البقرہ: ۲۲۸)
ہے۔ اس میں ’’الْمُطَلَّقٰتُ‘‘ سے ہر مطلقہ مراد ہے۔ حاملہ ہویا غیر حاملہ، مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آیت:
﴿وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق: ۴)
میں حاملہ اور آیت:
﴿اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ ﴾ (الاحزاب: ۴۹)
میں غیر مدخولہ کی عدت کا بیان کر کے ’’الْمُطَلَّقٰتُ‘‘ کو مدخولہ، غیر حاملہ کے ساتھ مخصوص کر دیا۔
حدیث کے ساتھ خاص ہونے کی مثال یہ ہے کہ آیت
﴿وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرہ: ۲۷۵)
میں ہر قسم کی بیع کو حلال کیا لیکن حدیث نے فاسد بیع کو الگ کر دیا، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے: سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈ کی جفتی کا معاوضہ لینے سے منع فرمایا۔
اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں ہے۔ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلۃ کی بیع سے منع فرمایا۔ یہ جاہلیت میں ہونے والی ایک بیع تھی۔ اس میں اونٹنی کی بیع اس طرح ہوتی کہ حاملہ اونٹنی جنم دے اور پھر جنم لینے والی اونٹنی بچہ جنم دے، اس بچے کی بیع ہوتی۔