کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 308
۲۔ صفت:
مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ﴾ (النساء: ۲۳)
یہاں ’’الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ‘‘ نِّسَآئِکُمُ کی صفت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے تمہاری اس بیوی کی بیٹی تمہارے اوپر حرام ہے جس بیوی سے تم نے مباشرت کی ہے اور اگر مباشرت نہیں کی (صرف نکاح ہی ہوا تھا) تو اس کی بیٹی (تمہاری ربیبہ) حرام نہیں ہے۔
۳۔ شرط:
مثلا آیت
﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْن.﴾ (البقرۃ: ۱۸۰)
میں ’’خَیْرَ‘‘ سے مراد مال ہے جو کہ وصیت کے لیے شرط ہے۔
اسی طرح
﴿وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْہُمْ اِِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًا﴾ (النور: ۳۳)
میں ’’خَیْرًا‘‘ سے مراد رقم ادا کرنے کی قدرت یا امانت داری اور ہنر ہے۔
۴۔ غایت:
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَ لَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ﴾ (البقرہ: ۱۹۶)
اور فرمان الٰہی ہے۔:
﴿وَ لَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ﴾ (البقرہ: ۲۲۲)
۵۔ بعض کا کل سے بدل بننا:
مثلاً اللہ کے فرمان: