کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 307
اسے ہی درست مانتے ہیں کیوں کہ لفظ کا تخصیص کے بعد بعض افراد کو شامل ہونا بلاتخصیص عام افراد مراد لینے کی طرح ہے اور یہ شمول حقیقی اور اتفاقی ہے اور اسے حقیقی ہی ہونا چاہیے۔
۳۔ پہلے عام کا قرینہ اکثر عقلی ہوتا ہے جو اس سے الگ نہیں ہوتا، جب کہ دوسرے کا قرینہ لفظی ہوتا ہے اور کبھی اس سے الگ بھی ہو جاتا ہے۔
خاص کی تعریف اور مخصص کا بیان:
خاص: عام کے بالمقابل ہوتا ہے اور غیر محدود طور پر اپنے تمام افراد کو شامل نہیں ہوتا۔
تخصیص: لفظ عام کی عمومیت سے بعض افراد کوخارج کرنا۔
مخصص: اس کی دو اقسام ہیں : ۱۔ متصل، ۲۔ منفصل
۱۔ متصل: جب عام اور مخصص لہ کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔
۲۔ منفصل: جب عام اور مخصص لہ کے درمیان فاصلہ ہو۔
۱۔ مخصص متصل:
پانچ طرح سے ہوتا ہے۔
۱۔ استثناء:
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا وَّاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ. اِِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا﴾ (النور: ۴۔۵)
’’اِِلَّا الَّذِیْنَ ‘‘ میں توبہ کرنے والوں کا استثناء ہے۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ﴾ (المائدہ: ۳۳۔۳۴)