کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 306
اسی طرح فرمان الٰہی:
﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ.﴾ (آل عمران: ۹۷)
جس عام سے خصوص مراد ہو اور وہ عام جسے مخصوص کیا گیا ہو میں فرق: ان دونوں میں کئی طرح سے فرق ہوتا ہے جن میں سے اہم درج ذیل ہیں :
۱۔ وہ عام جس سے خصوص مراد ہو وہ شروع سے ہی تمام افراد کو شامل نہیں ہوتا، لفظ کے شامل ہونے کے لحاظ سے اور نہ ہی حکم کے لحاظ سے بلکہ وہ ایسا کلمہ ہوتا ہے جو بہت سے افراد کو شامل ہو لیکن اسے ایک یا چند افراد کے لیے استعمال کیا جائے۔
جب کہ وہ عام جسے مخصوص کیا گیا ہے وہ لفظی لحاظ سے تمام افراد کو شامل ہوتا ہے لیکن حکم کے لحاظ سے تمام کے لیے نہیں ہوتا۔ جیسے:
﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ﴾ (آل عمران: ۷۳)
میں ’’النَّاسُ‘‘ اگرچہ عام ہے لیکن لفظی اور حکمی لحاظ سے صرف ایک شخص مراد ہے جب کہ
﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ﴾ (آل عمران: ۹۷)
میں ’’النَّاسِ‘‘ اگرچہ تمام لوگوں کو شامل ہے لیکن حکم کے لحاظ صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو صاحب استطاعت ہیں ۔
۲۔ پہلا عام قطعی طور پر مجازی ہوتا ہے کیوں کہ اس میں لفظ کو اصل موضوع سے ہٹ کر اس کے بعض افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بخلاف دوسرے کے کیوں کہ اس میں لفظ حقیقی موضوع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام حنابلہ، اکثر شوافع اور بہت سے احناف اسی کے قائل ہیں ۔
امام الحرمین[1] نے تمام فقہا سے اسے نقل کیا ہے۔
امام ابوحامد غزالی کہتے ہیں : امام شافعی اور ان کے شاگردوں کا یہی مذہب ہے۔ امام سبکی بھی
[1] امام الحرمین سے مراد عبدالملک بن ابوعبداللہ بن محمد الجوینی الشافعی العراقی ہیں ، انہیں ابوالعالی بھی کہا جاتا ہے۔ امام غزالی کے استاد اور شوافع میں سب سے بڑے عالم تھے، ۴۷۸ ہجری میں فوت ہوئے۔