کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 305
الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.﴾ (النساء: ۲۳)
ان تمام مثالوں میں کوئی خصوص نہیں ہے۔
۲۔ وہ عام جس سے خصوص مراد ہو:
اس کی مثال آیت:
﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۷۳)
میں پہلے الناس سے مراد نعیم بن مسعود اور دوسرے الناس سے ابوسفیان مراد ہیں ۔ ان دونوں جگہ ہی عموم مراد نہیں ہے۔ اس کی دلیل بعد والی آیت:
﴿ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہٗ فَلَا تَخَافُوْہُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.﴾ (آل عمران: ۱۷۵)
ہے، جس میں صرف ایک معین شخص کی طرف اشارہ ہے اور اگر جمع کا معنی مراد ہوتا تو الفاظ اس طرح ہوتے ’’اِنَّمَا اولٰٓئِکم الشَّیْطٰنُ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ﴾ (آل عمران: ۳۹)
حالانکہ آواز دینے صرف جبریل علیہ السلام تھے (نہ کہ تمام فرشتے)، جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ہے۔
نیز آیت
﴿ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾ (البقرہ: ۱۹۹)
میں ’’النَّاسُ‘‘ سے مراد سیدنا ابراہیم علیہ السلام یا قریش کے علاوہ تمام عرب ہیں ۔
۳۔ وہ عام جسے مخصوص کر دیا گیا ہو:
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ (البقرہ: ۱۸۷)