کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 304
یہاں ذوی العقول کے لحاظ سے عموم ہے۔ اسی طرح فرمان الٰہی
﴿وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ﴾ (البقرہ: ۱۹۷)
یہاں عموم غیر عاقل کے لیے ہے۔ اور آیت
﴿وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ﴾ (البقرہ: ۱۵۰)
میں عموم مکان کے لحاظ سے ہے، نیز آیت:
﴿اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی﴾ (الاسراء: ۱۱۰)
میں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں عموم ہے۔
عام کی اقسام:
عام کی تین اقسام ہیں :
۱۔ اپنے عموم پر باقی رہنے والا۔
۲۔ وہ عام جس سے خصوص مراد ہو۔
۳۔ وہ عام جسے مخصوص کر دیا گیا ہو۔
۱۔ اپنے عموم پر باقی رہنے والا:
قاضی جلال البلقینی کہتے ہیں : اس کی مثال بہت نادر ہے کیوں کہ ہر عام میں تخصیص کا تصور پایا ہے۔ امام زرکشی ’’البرہان‘‘ میں کہتے ہیں : قرآن میں اس کی بہت مثالیں ہیں اور انہوں نے درج چند مثالیں ذکر کی ہیں :
﴿وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ.﴾ (النساء: ۱۷۶)
﴿وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا.﴾ (الکہف: ۴۹)
﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ