کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 302
۳۔ معنوی دلائل: عموم اپنے الفاظ کے استعمال سے سمجھا جاتا ہے۔ اگر ان الفاظ کو وضع نہ کیا گیا ہوتا تو ذہن اسے سمجھنے کی طرف نہ جاتا اور عموم کے لیے ایسے الفاظ وضع کیے گئے ہیں جس طرح شرط، استفہام اور موصول کے الفاظ ہیں ۔ مثلاً ہم کُلٌّ اور بَعْضٌ میں فرق کرتے ہیں اور اگر کُلٌّ عموم کا فائدہ نہ دیتا ہو تو یہ فرق ثابت نہ ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی کہنے والا نکرہ منفیہ میں کہے لَا رَجُلَ فِی الدَّارِ تو اگر اس نے کسی بھی آدمی کو دیکھنے تک رسائی حاصل کی ہو تو وہ جھوٹا شمار ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ﴿مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۹۱) کہنے والے کا ان الفاظ میں رد فرمایا: ﴿ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی﴾ (الانعام: ۹۱) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نفی کے بعد آنے والا نکرہ عموم کے لیے ہوتا ہے۔ اگر یہ عموم کا فائدہ نہ دے تو ہمارا لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہ کہنا توحید پر دلالت نہ کرے کیوں کہ اس طرح اس میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک معبود کی نفی نہیں ہوگی، انہی کچھ دلائل کی وجہ سے عموم کے کچھ صیغے ہیں ۔ جیسے: ٭ کُلٌّ: جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: ۱۸۵) نیز: ﴿خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۱۰۲) اور اس طرح کی تمام آیات۔ ٭ وہ کلمہ جسے اَل کے ساتھ معرفہ بنایا گیا ہو لیکن وہ اَل عہد کے لیے نہ ہو۔ جیسے ﴿وَالْعَصْرِ. اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ .﴾ (العصر: ۱۔۲) ﴿اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (العصر: ۳) سے استثناء ہو رہا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ ﴾ (البقرہ: ۲۷۵)