کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 301
﴿قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ﴾ (ہود: ۴۶) اس میں وجہ دلالت یہ ہے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿اِنَّا مُنَجُّوْکَ وَ اَہْلَکَ﴾ (العنکبوت: ۳۳) کی وجہ سے بیٹے کے لیے دعا کی تھی۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو برقرار رکھا اور نوح علیہ السلام کو وہ جواب دیا جس میں دلیل تھی کہ آپ کا بیٹا آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔ اگر یہاں (اَہْلَک) میں اہل کی نسبت نوح علیہ السلام کی طرف عمومی نہ ہوتی تو ان کے لیے یہ کام (دعا کرنا) درست نہ ہوتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْٓا اِنَّا مُہْلِکُوْٓا اَہْلِ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ اِنَّ اَہْلَہَا کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ. قَالَ اِنَّ فِیْہَا لُوْطًا قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْہَا لَنُنَجِّیَنَّہٗ وَ اَہْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ.﴾ (العنکبوت: ۳۱۔۳۲) یہاں وجہ دلالت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں کے قول اَھْلَ ھَذِہ القَرْیَۃِ سے عموم سمجھا تھا، اسی لیے انہوں نے لوط علیہ السلام کا ذکر کیا، تو فرشتوں نے اسے برقرار رکھا اور جواب دیا کہ لوط علیہ السلام اور ان کے اہل کو استثناء حاصل ہے اور پھر نجات پانے والوں سے ان کی بیوی کو مستثنیٰ کر دیا اور یہ بھی عموم پر دلالت کرتا ہے۔ ۲۔ اجماعی دلائل: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجماع سے آیت ﴿الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ﴾ (النور: ۲) سے عمومی طور پر ہر زانی اور ہر زانیہ جب کہ آیت ﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا﴾ (المائدہ: ۳۶) سے ہر چور مراد ہے۔