کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 299
بھی ہے کہ ان دیکھی چیزیں دیکھی ہوئی چیزوں سے بڑی ہیں ۔ آخرت کی ہر چیز دنیا سے ممتاز ہوگی، لیکن اس امتیاز کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں ہے اور یہ وہ تاویل ہے جسے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ۱۷۔ مذموم تاویل: مذموم تاویل کا مطلب ہے کہ ’’کسی دلیل کی وجہ سے لفظ کے راجح احتمال کو چھوڑ کر اس کے مرجوح احتمال کو لینا۔‘‘ بہت سے متاخرین نے اس تاویل کو اپنایا ہے تاکہ وہ اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی مماثلت سے منزہ رکھ سکیں ۔ لیکن یہ خیال باطل ہے جس نے انہیں اس سے سخت معاملے میں پھنسا دیا ہے جس سے یہ بھاگے تھے۔ مثلاً یہ لوگ یَد سے قدرت مراد لیتے ہیں ۔ اس بات سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہ وہ خالق کے لیے مخلوق کی صف بیان کر کے مماثلت نہیں کر سکتے، یعنی ان کے ہاں لفظ یَدْ متشابہ ہے اس لیے انہوں نے اس کی تاویل قدرت سے کی۔ اس میں بھی تضاد ہے؛ کیوں کہ جس چیز کی انہوں نے معنوی طور پر نفی کی، اس قدرت کے معنی میں وہی چیز ثابت کر دی کیوں کہ بندوں میں بھی تو قدرت ہوتی ہے۔ جو چیز انہوں نے ثابت کی وہ ممکن ہے تو ہاتھ کا اثبات بھی اللہ کے لیے ممکن ہے اور اگر ہاتھ کا اثبات اس لیے ہے باطل ہے کہ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے تو تشبیہ تو قدرت کے اثبات سے بھی لازم آتی ہے۔ اس طرح راجح احتمال کو چھوڑ کر مرجوح احتمال کے لفظ کو پھیر کر اس بارے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ لفظ موؤل ہے،۔ ائمہ سلف نے جن متاولین کی مذمت کی ہے وہ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر کوئی لفظ متشابہ ہو جائے تو وہ اس کے غلط تاویل کر دیتے ہیں ، اگرچہ وہ معنی دوسروں کے لیے متشبہ نہیں ہوتا۔