کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 298
یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک اور دیگر اسلاف امت سے آیت:
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی.﴾ (طٰہٰ: ۵)
کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
((الاِسْتِوائُ معلومٌ، والکَیفُ مَجْھُولٌ، والایمانُ بہ واجِبٌ وَالسُّؤَال عَنْہ بِدْعَۃٌ۔))
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت کا کسی کو علم نہیں ، اس پر ایمان لانا واجب اور اس بارے سوال کرنا بدعت ہے۔
امام مالک کے استاد ربیعہ بن عبدالرحمان فرماتے ہیں :
((اَلْاِسْتَوَائُ مَعْلُوْمٌ، وَالْکَیْفُ مَجْھُوْلٌ، وَمِنَ اللّٰہ الْبَیَانُ، وَعَلَی الرَّسُوْلِ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْاِیْمَانُ۔))
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم جب کہ اس کی کیفیت مجہول ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے بیان فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے پہنچا دیا اور ہم پر ایمان واجب ہے۔‘‘
ان باتوں سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا استواء معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے۔
یہی صورتِ حال قیامت کے بارے بتائی گئی باتوں کی ہے۔ ان میں بھی ایسے الفاظ آتے ہیں جو ہمارے ہاں معروف ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ اور ہے، آخرت میں میزان ہوگا، جنت بھی اور آگ بھی۔
نیز جنت میں یہ چیزیں ہوں گی:
﴿اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَّاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِیْنَ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی﴾ (محمد: ۱۵)
اسی طرح یہ چیزیں بھی ہوں گی:
﴿فِیْہَا سُرُرٌ مَّّرْفُوْعَۃٌ. وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوعَۃٌ. وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَۃٌ. وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ.﴾ (الغاشیہ: ۱۳۔۱۶)
چناں چہ ان چیزوں کا ہمیں علم ہے، ان پر ہمارا ایمان بھی ہے اور ہمیں اس بات کا ادراک