کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 297
آخرت میں وقوع پذیر ہوگا۔ اس معنی ومفہوم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجود میں قرآن کے فرمان ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا.﴾ (النصر: ۳) کی تاویل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔)) (رواہ البخاری ومسلم) چناں چہ جو لوگ وَمَا یَعْلَمُ تَاوِیْلَہُ اِلَّا اللّٰہ پر وقف کرتے اور والراسخون فی العلم سے نئی کلام شروع کرتے ہیں تو وہ یہاں تاویل کا تیسرا معنی مراد لیتے ہیں ۔ یعنی ایسی حقیقت جس کی طرف کلام لوٹتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی کیفیت، اس کی صفات اور آخرت کی حقیقت کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ جو لوگ واؤ کو عاطف بناتے ہیں اور والراسخون فی العلم پر وقف کرتے ہیں وہ اس تاویل سے دوسرا معنی یعنی تفسیر لیتے ہیں ۔ امام مجاہد امام التفسیر ہیں ، ان کے بارے امام نووی کہتے ہیں : ’’اگر آپ کو امام مجاہد کی تفسیر مل جائے تو کافی ہے۔ جب یہ بیان کیا جائے کہ وہ متشابہ کی تاویل جانتے تھے تو اس تاویل سے مراد تفسیر ہے۔‘‘ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اختلاف تو صرف لفظ تاویل کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم میں کچھ متشابہ الفاظ ہیں جن کے معانی میں ہمارے دنیاوی علم کے مطابق تشابہ پایا جاتا ہے لیکن حقیقت وہ نہیں جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں چناں چہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں اگرچہ بندوں کے اسماء صفات کے ساتھ لفظی اور معنوی تشابہ پایا جاتا ہے لیکن خالق اور اس کی صفات کی حقیقت مخلوق اور ان کی صفات کی حقیقت جیسی نہیں ہے۔ محقق علماء ان اسماء وصفات کے معانی سمجھتے اور ان میں فرق کو واضح کرتے ہیں لیکن اصل حقیقت (تاویل) کیا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے۔