کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 296
نے اسی آیت:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.﴾
(آل عمران: ۷)
کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہوں ، تو ان سے پچنا کیوں کہ انہی لوگوں کا (اللہ تعالیٰ نے) نام لیا ہے۔ (اخرجہ البخاری ومسلم وغیرھما)
دوسری رائے جس کے مطابق واؤ عاطفہ ہے اس بات کے قائلین کی جماعت کے سرخیل امام مجاہد ہیں ، وہ فرماتے ہیں : میں نے شروع سے آخر تک سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو قرآن سنایا، میں ہر آیت پر ٹھہرتا اور ان سے اس آیت کی تفسیر پوچھتا۔
امام نووی نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے چناں چہ وہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں : یہی بات درست ہے کیوں کہ یہ بات بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے انداز میں مخاطب کرے جس انداز کو لوگ جانتے ہی نہ ہوں ۔
۱۶۔ تاویل کا مطلب سمجھنے کے لیے دو آراء کے درمیان تطبیق دینا:
تاویل کے معنی کی طرف رجوع کرنے کی بدولت یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دو مختلف آراء میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لفظ تاویل تین معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۱۔ کسی دلیل کی بناء پر لفظ کو راجح احتمال کی بجائے مرجوح احتمال کی طرف پھیرنا۔
۲۔ تاویل بمعنی تفسیر، یعنی کسی لفظ کا معنی سمجھانے کے لیے اسے کھول کر بیان کرنا۔
۳۔ وہ حقیقت جو کلام کا انجام ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کے بارے جو بیان فرمایا ہے اس کی تاویل اس کی ذات مقدس اور اس کی صفات کے حقائق ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آخرت کے دن کے بارے میں بتایا ہے اس کی تاویل یہ ہے کہ وہ سب کچھ