کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 295
﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ (آل عمران: ۳۱) وغیرہ اور اس طرح حروفِ مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کے ابتدائی کلمات نیز آخرت کے دن اور قیامت کے علم کے بارے آیات۔ ۱۵۔ متشابہ کی پہچان میں اختلاف: جس طرح خاص قسم کے محکم اور متشابہ میں اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح متشابہ کی معرفت کے امکان میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ اس اختلاف کے پیداہونے کا سبب اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ﴾ (آل عمران: ۷) کا وقف ہے کہ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر ﴿اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.﴾ (آل عمران: ۷) یا پھر: ﴿فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ﴾ (آل عمران: ۷) پر وقف ہوگا یا یہ معطوف ہوگا اور یَقُوْلُوْنَ کا حال۔ جب کہ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ پر وقف ہوگا۔ اہلِ علم کی ایک جماعت واؤ کو مستانقہ مانتی ہے جن میں ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ وتابعین ہیں ۔ نیز اس کے استدلال میں ابن عباس کی وہ حدیث پیش کی جاتی ہے جسے امام حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح پڑھا کرتے تھے۔ ﴿وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَیَقُوْلُ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ اٰمَنَّا بِہٖ﴾ دوسری دلیل سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت ہے وہ اس طرح پڑھتے تھے: ﴿وَاِنْ تَاوِیْلُہُ اِلَّا عِنْدَ اللّٰہِ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ﴾ قرآن نے متشابہ آیات کی پیروی کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ایسے لوگ کج رو اور فتنہ کے متلاشی ہیں ۔ نیز اس بارے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم